تحریر: نواب علی اختر
حوزہ نیوز ایجنسی | کئی جنوبی امریکی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کیے لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے عرب ممالک میں سے صرف اردن اور بحرین نے ہی ایسا کیا۔
ساڑھے چارماہ سے زیادہ عرصہ سے تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے ہاتھوں غزہ اور مغربی کنارے میں نہتے فلسطینی بچوں کی چیخیں اور عورتوں کی آہ وزاریاں سننے والا کوئی نہیں ہے۔ تمام حقوق انسانی کے ٹھیکیدارکہیں غائب ہیں، قیامت کا رن پڑا ہے۔ 29 ہزار سے زائد فلسطینی لقمہ اجل بن چکے اور جنگ کے عالمی قوانین اور جنیوا کنونشن طاق نسیاں ہوئے۔ اس مدت میں صہیونی بمباری سے غزہ تباہ و برباد ہوچکا، یہاں تک کہ اسپتال اور پناہ گاہوں کو بھی نہیں بخشا گیا جہاں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے مظلوم عوام پناہ لئے ہوئے ہیں۔
آخر یہ آگ و خون کی ہولی کب تک چلے گی یا پھر جنگ بندی کی کوئی راہ نکل پائے گی؟ فلسطینیوں کی پہلی دربدری (1948) اور دوسری وطن بدری (1967) کے بعد کیا اب صحرائے سینا میں غزہ کے پناہ گزینوں کو بدر کیا جائے گا؟ یا پھر حماس کے مجاہدین اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیں گے۔ دونوں اطراف کیلئے ایک بڑا جوا ہے۔ گوکہ یہودی یرغمالیوں کے معاملے میں اسرائیل کی انتہا پسند نیتن یاہو حکومت سخت دباﺅ میں ہے اور جس کا مستقبل بھی بہت مخدوش ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ 1948 کے بعد فلسطینیوں کا دوسرا بڑا انخلا (عقبہ) ہوگا جو ایک بڑے انسانی بحران کی صورت میں سامنے آئے گا۔
فلسطینیوں کے ساتھ اگر کوئی کھڑا نظرآرہا ہے تو وہ صرف ایران ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر عرب ممالک خاص طور پر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مصر اور اردن اس انتظار میں ہیں کہ حماس کا یا تو پتہ صاف ہوجائے یا پھر اسرائیل پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائے۔ اس لیے 22 عرب ملکوں پر مشتمل عرب لیگ کا اجلاس جنگ شروع ہونے کے 34 روز بعد طلب کیا گیا ۔ اس دوران عالمی رائے عامہ کا پلڑا مظلوم فلسطینیوں کے حق میں پلٹ گیا اور دنیا بھر میں خاص طور پر مغرب میں جنگ بندی اور انسانی کمک کے لیے لاکھوں لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی زیر محاصرہ غزہ کی پٹی پر بمباری جاری ہے تو ان واقعات نے اسرائیل کے اندر بھی بحث کھڑی کردی ہے۔ اسرائیلی شہریوں کی ایک کثیر تعداد سکیورٹی فورسز اور انتہا پسند حکومت پر فلسطینی مسلح گروہوں کے حملوں کو روکنے میں ناکامی پر نالاں ہے جن میں 1,300 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ معاشرے کے مختلف طبقات سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ یہ تمام واقعات کئی دہائیوں سے جاری قبضے کی وجہ سے ہیں۔ 75 سال سے (فلسطینی سرزمین پر) قبضہ جاری ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کار بہت برے کام کر رہے ہیں۔ وہ خاص طور پر فلسطینی بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔
موجودہ حالات کو جنم دینے والا یہ قبضہ ہی ہے۔ اس دوران اسرائیلی صحافی گید ہیرل نے بھی حماس کی کارروائی روکنے میں ناکامی پر حکومت، انٹیلی جنس اور فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیل میں ڈائیلاگ سینٹر کی جانب سے ملک بھر میں 620 یہودیوں کے ساتھ کیے گئے ایک سروے کے مطابق 86 فیصد شرکاء نے غزہ کے فلسطینی گروہوں کے حملے کا ذمہ دار ملکی انتظامیہ کو ٹھہرایا ہے باوجود اس کے نیتین یاہو اپنی تذلیل کا حساب چکتا کرنے کے لئے بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے پر بضد ہیں اور د نیا کے تمام خود ساختہ’سپر پاورز‘تماش بین بنے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس جنگ کو روکنے کی اپنی ذمہ داری میں واضح طور پر ناکام رہی ہے۔ یہ ایک ایسے عالمی ادارے کی ناکامی ہے جس کی بنیادی ذمہ داری ہی بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ جنگ بندی یا انسانی بنیادوں پر جنگ میں توقف کا مطالبہ کرنے والی قرار دادوں کی عدم منظوری نے اقوام متحدہ کے اراکین میں اس تقسیم کو بے نقاب کر دیا ہے جس کے سبب یہ ادارہ مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ جنگ بندی کی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ تھا۔ عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ کی غیر مشروط حمایت سے اسرائیل کو اپنی وحشیانہ فوجی مہم جاری رکھنے کے لیے کھلی چھوٹ مل گئی۔
اقوام متحدہ کے حکام نے بارہا اعلان کیا کہ غزہ میں پھنسے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں پر اسرائیلی تشدد دراصل اجتماعی سزا ہے اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی شراکت داروں نے اسرائیل پر حملے کے لیے حماس کو ہی مورد الزام ٹھہرایا لیکن پوری آبادی پر اسرائیل کی کارپٹ بمباری کو اسرائیل کے لیے ’اپنے دفاع کے حق‘ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے ہزاروں فلسطینیوں کی اموات پر کسی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان لوگوں کو حماس کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ فلسطینیوں کو انسان نہ سمجھنے کی ایک مثال ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے تو فلسطینی ہلاکتوں کے اعداد و شمار پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہیں فلسطینیوں کی جانب سے دیے جانے والے اعداد و شمار پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ جب امریکہ نے شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرنا شروع کیا تو یہ مذمت بہت ناکافی تھی اور تب تک بہت دیر بھی ہوچکی تھی خاص طور پر ان حالات میں جب اس نے جنگ بندی کی مخالفت جاری رکھی۔ اس پیش رفت نے امریکہ کی زیر قیادت مغربی ممالک کی منافقت کو آشکار کیا ہے۔ مغربی رہنماوں نے یوکرین کی جنگ میں روسی فوجی کارروائیوں اور یوکرین میں شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی تھی لیکن انہوں نے غزہ پر اس اصول کو لاگو نہیں کیا۔
مغربی ممالک انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس پر دوسرے ممالک کو مسلسل لیکچر دیتے ہیں لیکن انہوں نے اسرائیلی مظالم اور نسل کشی کے اقدامات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مغرب کے دوہرے معیار کا یہ مظاہرہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے مغربی فکر ہمیشہ سے جانبدارانہ رہی ہے۔ اس کی تنقید عام طور پر اپنے مخالفین پر ہوتی ہے جبکہ دوست ممالک کو تنقید سے بچایا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا کا کردار بھی ان کی حکومتوں کی طرح یک طرفہ رہا ہے اور وہ فلسطینی عوام کے مصائب کو مسلسل نظر انداز کررہا ہے۔
مسلم ممالک کے رد عمل کو دیکھا جائے تو یہ نہ ہی زمینی صورتحال کے مطابق تھا اور نہ ہی اپنے لوگوں کی توقعات کے مطابق۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد کے حوالے سے اقوام متحدہ میں سفارتی سرگرمیوں کے علاوہ یہ ممالک اسرائیل کی مذمت کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ کئی جنوبی امریکی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کیے لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے عرب ممالک میں سے صرف اردن اور بحرین نے ہی ایسا کیا۔ کیا اس سب کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے؟
اس کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ ہاں اس لیے کیونکہ عالمی برادری غزہ میں قتل عام کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ نہیں اس وجہ سے کیونکہ پوری دنیا میں، مغرب سے لے کر مشرق تک، لوگ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ احتجاجی ریلیوں میں غزہ میں جاری انسانی المیے پر عوامی غم و غصے کا اظہار ان ممالک کی حکومتوں کی طرف سے اختیار کیے گئے متعصبانہ موقف کے بالکل برعکس تھا۔ امریکہ میں رائے عامہ بھی بائیڈن انتظامیہ کے موقف سے بالکل مختلف تھی۔
ڈیٹا فار پروگریس کے ایک پول کے مطابق 66 فیصد امریکی ووٹروں نے جنگ بندی کی حمایت کی ہے۔1948ء کے بعد فلسطینی عوام پر آنے والی سب سے بڑی تباہی کے نتائج خطے اور دنیا کے لیے بہت دور رس ہوں گے۔ بہر کیف جو بات تاریخی طور پر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ صہیونیت پسندی یا دہشت گردی سے اسکا حل ہونے والا نہیں۔ اسرائیل کو اگر سلامتی چاہیے تو وہ فلسطینیوں کو انصاف دئیے بغیر اور ان کی ریاست کے قیام کے بغیر ممکن نہیں جو اسرائیل کے ساتھ بقائے باہم پر عمل پیرا ہو۔ تاریخ کی نا انصافیوں کے گناہ فلسطینیوں کے ساتھ انصاف اور اسرائیل کی سلامتی سے ہی دھل سکتے ہیں۔